امام صادق علیہ السلام کا اسلامی علوم کے فروغ میں کلیدی کردار
چنانچہ اس عالم نے ایسا ہی کیا لیکن امام زمانہ عليہ السلام سے ملاقات نہ ہوسکی، دوسری رات ، دوسرے عالم کو بھیجاگیا لیکن ان کو بھی کوئی جواب نہ مل سکا. آخری رات تیسرے عالم بزرگوار بنام محمد بن عیسیٰ کو بھیجاگیا چنانچہ وہ بھی صحرا کی طرف نکل گئے اور روتے پکارتے ہوئے امام عليہ السلام سے مدد طلب کی۔ جب رات اپنی آخری منزل پر پہنچی تو انھوں نے سنا کہ کوئی شخص ان سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے:
4 مکتب تشیع کا تحفظ: ہر معاشرے کو اپنے نظام کی حفاظت اوراپنے مطلوبہ مقصد تک پہنچنے کے لئے ایک آگاہ رہبر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کی اعلیٰ قیادت اور رہنمائی میں معاشرہ صحیح راستہ پر قدم بڑھائے۔ ایک رہبر اور ہادی کا وجود معاشرے کے افراد کے لئے بہت بڑی پشت پناہی ہے تاکہ معاشرہ ایک بہترین نظام کے تحت اپنی حیثیت کو باقی رکھ سکے اور آئندہ کے پروگرام کے استحکام کے لئے کمر ہمت باندھ لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے جابر کے سوال کے جواب میں فرمایا : "و الذی بعثنی باالنبوۃ انہم یستضیئوون بنورہ و ینتفعون بولایتہ فی غیبتہ کاانتفاع النّاس بالشّمس و ان تجللہا السحاب"(کمال الدین ، ج۱، باب ۲۳ ، حدیث ۳) قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبوت کا منصب دے کر مبعوث کیا ہے ، یقیناً لوگ (غیبت کے زمانے میں) امام غایب کے وجود کی نور سے منور ہوں گے اور ان کی ولایت (اور وجود) سے اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح سورج سے فایدہ اٹھایا جاتا ہے اگر چہ بادلوں نے اسے (سورج) چھپا دیا ہو ۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے مسکن اور مکان کے بارے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں وہ صحیح نہیں ہے اور فقط خیال و گمان کی بنیاد پر ہے،خود حضرت امام مہدی(عج) کا پردۂ غیبت میں رہنا اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ غیبت کے زمانے میں زندگی گزارنے کے لئے کوئی خاص جگہ اور مکان معین نہیں ہے ، بلکہ زمانۂ غیبت میں آپ مختلف مکانوں اور شہروں میں ناشناس طور پر زندگی گزارتے ہیں ۔( بحار الانوار, جلد 52 ,صفحہ 153،158 )
نائب خاص کے ذریعے فیض: لوگوں کو غیبت کے زمانہ میں داخل ہونے کے لئے تیار اور آمادہ کرنے کے لئے یہ آخری راستہ تھا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام ٢٦٠ھ قمری میں شھید ہوئے اور امام مہدی علیہ السلام کی امامت کا آغاز ہوا اور ساتھ بھی ان کی غیبت کا زمانہ شروع ہوا تو بزرگان شیعہ سے چارافراد کا ترتیب کے ساتھ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کے خاص نائب کے عنوان سے تعارف کروايا گيا اور یہ لوگ تقریبا ٧٠ سال تک لوگوں اور امام کے درمیان رابطہ کاذریعہ رہے۔
امام نے کئی دفعہ لوگوں سے پردہ کے پیچھے سے گفتگو کی تاکہ وہ امام کو نہ دیکھنے کی عادت ڈالیں۔
داود بن قاسم کہتے ہیں کہ ميں نے امام نقی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرمارہے تھے میرے بعد میرا جانشین میرا بیٹا حسن ہے اور تم لوگ میرے جانشین کے بعد والے جانشین کے ساتھ کیا کروگے؟ میں نے کہا آپ پر قربان ہوجاؤں ٬کیا ہوگا؟ فرمایا: کیونکہ تم انہیں نہیں دیکھو گے ... عرض کی تو کیسے انہیں یاد کریں گے فرمایا: ایسے کہو : حجة آل محمد صلوات اللہ علیہم۔
ایک زمانہ لوگوں پر آئے گا کہ ان کا امام غائب ہوگا ٬خوشخبری ہو ان لوگوں کے لئے کہ جو اس زمانہ میں ہمارے امر پر ثابت قدم رہیں سب سے کم ترین ثواب کہ جو انہیں ملے گا وہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالی انہیں آواز دے گا اورفرمائے گا