6

غیبت امام مہدی ع قسط (46)

  • News cod : 33733
  • 04 می 2022 - 14:58
غیبت امام مہدی ع قسط (46)
ج): عادي اور غيرعادي :عادي علامات سے مراد وہ قدرتي علامتيں ہيں جو دوسري چيزوں کي طرح بطور عادي وقوع پذير ہوں اور اس کے مقابلے ميں غير عادي علامات وہ علامتيں ہيں کہ جن کا وقوع قدرتي طور پر ممکن نہ ہو بلکہ يہ علامات معجزانہ طور پر وجود ميں آئيں گي۔

سلسلہ بحث مہدویت

تحریر: استاد علی اصغر سیفی (محقق مہدویت)

گذشتہ اقساط ميں بيان ہوچکاہے کہ علامات سے مراد نشانياں اور علامات ظہور سے مراد وہ نشانياں اور واقعات ہيں جو ظہور سے پہلے يا ظہور کے بعد رونما ہونگے اور لوگوں کو آنحضرت( عج) کے ظہور سے آگاہ کريں گے۔
علامات کي اقسام:
علامات ظہور کي بہت ساري قسميں ذکر کي گئي ہيں کہ جن ميں سے بعض درج ذيل ہيں:
الف): حتمي اورغير حتمي:
علامات کي اس قسم کا وجہ روايات ہيں يعني آئمہ عليھم السلام کے فرامين ميں علامات ظہور کو حتمي اور غير حتمي علامات سے تعبير کيا گياہے۔
حتمي علامات سے مراد وہ علامتيں ہيں کہ جن کا تحقق اوروقوع يقيني ہے اور غير حتمي علامات سے مراد وہ علامتيں ہيں کہ جن کے عدم تحقق اور عدم وقوع کا احتمال پايا جائے يعني ان علامات کا وقوع پذير ہونا حتمي اور يقيني نہ ہو۔
اس مطلب کي وضاحت کے لئے درج ذيل روايت پر غور کريں:
(عن ابي جعفر عليہ السلام: قال ان من الامور اموراً موقفۃً و اموراً محتومۃ وان السفياني من المحتوم الذي لابُدَّ مِنْہ). غيبت نعماني٬ ب ۱۱۸ ٬ ح۶.
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا: تحقيق بعض امور موقوف يعني غيرحتمي اور بعض امور حتمي ہيں البتہ سفياني کا خروج حتمي امور ميں سے ہے اور يہ ہوکر ر ہے گا۔
اس روايت کے علاوہ اور بھي بہت سي روايات ہيں کہ جن ميں علامات ظہور کو دو قسموں حتمي اور غير حتمي ميں تقسيم کيا گياہے۔
ب): متصل و منفصل:متصل علامات سے مراد وہ علامتيں ہيں جن کے وقوع کا زمانہ حضرت (عج) کے زمانہ ظہور کے نزديک اور اس کے ہمراہ ہو گويا کہ ان ميں فاصلہ نہ ہو اور منفصل علامات سے مراد علامتيں ہيں کہ جن کے وقوع کا زمانہ اور آنحضرت (عج)کے ظہور کے زمانہ کے درميان فاصلہ پايا جا تاہے ، البتہ يہ علامات مؤمنين کے دلوں ميں اطمينان اور اُميد پيدا کرتي ہيں۔
اس سلسلے ميں اما م جعفر صادق عليہ السلام کا ارشاد گرامي ہے: (عن صالح قال سمعت ابا عبداللہ عليہ السلام يقول: ليس بين قيام القائم و بين قتل النفس الزکيۃ الا خمس عشرۃ ليلۃ ) غيبت طوسي ٬ ص۴۴۵ ش ۴۴۰.
صالح کہتاہے، ميں نے امام جعفر صادق عليہ السلام کو يہ فرماتے ہوئے سنا: قائم( عج) کے قيام اور نفس زکيہ کے قتل کے درميان صرف پندر راتوں کا فاصلہ ہوگا۔
اس روايت ميں واضح طور پر بيان کيا گياہے کہ علامات ظہور اور خود ظہور کے درميان زيادہ فاصلہ نہيں ہوگا۔ايک اور روايت ميں حضرت امام محمد باقر عليہ السلام علامات ظہور کو بيان کرتے ہوئے بني عباس کے اختلاف کي طرف بھي اشارہ کرتے ہيں۔
(واختلاف ُ بني عباس في الدولۃ من الحتوم) ارشاد مفيد باب ذکر علامات قيام القائم ٬ ج۳.
اس روايت ميں بني عباس سے مراد وہي عباسي خليفے کہ جنہوں نے بني اميہ کے بعد حکومت کي باگ دوڑ سنبھالي اور يہ واضح سي بات ہے کہ اس اختلاف اور بني عباس کي حکومت کے زوال کو کئي سو سال گز ر چکے ہيں۔
البتہ يہ بات ياد ر ہے کہ حتمي علامات ميں عام طور پر وہ علامات آئيں گي جو ظہور کے زمانہ میں متصل حالت ميں واقع ہوں گي۔
ج): عادي اور غيرعادي :عادي علامات سے مراد وہ قدرتي علامتيں ہيں جو دوسري چيزوں کي طرح بطور عادي وقوع پذير ہوں اور اس کے مقابلے ميں غير عادي علامات وہ علامتيں ہيں کہ جن کا وقوع قدرتي طور پر ممکن نہ ہو بلکہ يہ علامات معجزانہ طور پر وجود ميں آئيں گي۔
مثلاً سفياني کا خروج اور نفس زکيہ کا قتل پہلي قسم ہيں اور ماہ مبارک رمضان کے آخر ميں چاند گرہن اور وسط ميں سورج گرہن دوسري قسم کي علامات ميں سے شمار ہوتي ہيں:
(عن ثعلبۃ من الازدي قال قال ابوجعفر عليہ السلام آيتان تکون قبل القائم کسوف الشمس في النصف من شھر رمضان و خسوف القمر في آخرہ قال: قلتُ يابن رسول اللہ تکسف الشمس في آخر الشھر و القمر في النصف . فقال ابوجعفر عليہ السلام انا اعلم بما قلت انھما آيتان لم تکونا منذ ھبط آدمُ عليہ السلام ). ارشاد مفيد٬ باب ذکر علامات قيام القائم ج۱۰.
ثعلبہ سے نقل ہوا کہ : حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے ارشاد فرمايا: کہ قائم کے قيام سے پہلے دو علامتيں وقوع پذير ہوں گي ايک يہ کہ ماہ مبارک رمضان کے وسط ميں سورج اور دوسري يہ کہ اسي مہينے کے آخر ميں چاند کو گرہن لگے گا۔
ميں نے کہا اے فرزند رسول خداکے نظام میں عام طور پر سورج گرہن آخر ماہ اورچاند گرہن وسط ماہ ميں وقوع پذير ہوتاہے ۔امام عليہ السلام نے جواب ديا: جو ميں کہہ رہا ہوں اس ميں بہتر جانتاہوں، يہ دو ايسي علامتيں ہيں جوحضرت آدم کے زمانہ سے ليکر آج تک وقوع پذير نہيں ہوئي ہيں۔
د): آسماني و زميني علامتيں: آسماني علامتوں سے مراد وہ علامتيں ہيں جو آسمان ميں ظاہر ہوں گي مثلاًآسماني آواز٬ چاند گرہن اورسورج گرہن جيسي علامات اور زميني علامات کے مراد وہ علامتيں ہيں جو روئے زمين پر وقوع پذير ہوں گي جيسے سفياني کا خروج اور نفس زکيہ کا قتل
مذکورہ چار قسموں کے علاوہ اور اقسام بھي ذکر کي گئي ہيں ليکن اختصار کي وجہ سے ان سے چشم پوشي کرتے ہيں۔
(جاری ہے… )

مختصر لنک : https://wifaqtimes.com/?p=33733