حجاب کی رعایت نہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق تذکر دینا ضروری اور شرعی فریضہ ہے، آیت الله العظمی نوری همدانی
1928میں جب آپکی عمر 14سال تھی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے مرکز علم و ادب حوزہ علمیہ لکھنؤ داخل کروا دیا گیا۔اپ نے لکھنوء سے فاضل ادب اور فاضل حدیث کی اسناد بھی حاصل کیں خدا داد صلاحیت اور اعلی زہانت کی بدولت آپ نے 16سال کا نصاب صرف 8سال میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا
صدقہ کے حوالے سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس کے مقدار مہم نہیں ہے کہ انسان بہت زیادہ مال دے،بلکہ جتنا وہ دے وہی کافی ہے بلکہ بعض روایات میں آیا ہے:"اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ شِقُّ تَمْرَةٍ فَكَلِمَةٌ طَيِّبَةٌ"؛ بچو تم دوزخ سے اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا دے کر ہو اور یہ بھی نہ پائے تو اچھی سی کوئی بات کہہ کر سہی۔
اگر اسرائیل اور ہندوستان کے حکمران شہداء کے خون کا تمسخر اڑاتے ہیں تو ہمارے حکمران بھی شہداء کے وارثوں کو کبھی ٹشو پیپر کے ٹرک بھیجنے، کبھی شہداء کے ورثاء کو بلیک میلر کہنے اور کبھی سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کی ماوں سے احتجاج کرنے کے بجائے مزید بچے پیدا کرنے کو کہتے ہیں۔
کچھ عرصے کی مختصر سی خاموشی جس میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ یا دھماکہ نہ ہو اور اس وقفے کو امن کا نام دیا جاتا ہے ، در حالیکہ وہ کسی مزید بڑے واقعے کی تیاری کا پیش خیمہ بن رہی ہوتی ہے۔
سلطان عبد الحمید ثانی کا نام ہمیشہ تاریخ فلسطین میں یاد رکھا جاتا ہے۔ مسئلہ فلسطین حق وباطل کی ایک ایسی سرخ لکیر ہے کہ جس نے اپنے حمایتیوں اور مخالفین کو تاریخ میں رقم کر رکھا ہے۔ سلطان عبدالحمید ثانی ترکی کے شہر استنبول میں 21ستمبر 1842ء کو پیدا ہوا اور آپ نے 1876ء سے 1909ء تک سلطنت عثمانیہ کے منصب پر ذمہ داری نبھائی۔
اگر قرآن میں کسی طرح کا انحراف و کجی نہیں ہے،”غیر ذی عوج’‘تو امام حسین کے سلسلے میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ آپ ایک لمحہ کے لئے بھی باطل کی طرف مائل نہیں ہوئے،”لم تمل من حق الی الباطل
سانحہ پشاور میں شہداء کے قاتلوں میں وہ سب لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے آج تک اپنی زبان و بیان کے ساتھ معاشرے میں شیعہ عقائد کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائیں اور بے گناہ انسانوں کے قتلِ عام کی راہ ہموار کی۔ دینِ اسلام سچائی کا پیکر ہے
شیعہ حضرات کے مطابق جو شخص حیاتِ پیغمبرﷺ میں ایمان لایا اور تاحیات اُس ایمان پر قائم رہا، صرف وہی صحابی کہلانے کا حق دار ہے۔ ان کے مطابق جس نے ایمان لانے کے بعد رسولﷺکی اطاعت نہیں کی، تو وہ صحابی بھی نہیں رہا۔ یعنی اہلِ تشیع کے ہاں حکمِ رسولﷺ کے مقابلے میں خطائے اجتہادی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
جیسے ہم نے تمہارے درمیان خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاکیزہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔”