حجاب کی رعایت نہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق تذکر دینا ضروری اور شرعی فریضہ ہے، آیت الله العظمی نوری همدانی
1928میں جب آپکی عمر 14سال تھی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے مرکز علم و ادب حوزہ علمیہ لکھنؤ داخل کروا دیا گیا۔اپ نے لکھنوء سے فاضل ادب اور فاضل حدیث کی اسناد بھی حاصل کیں خدا داد صلاحیت اور اعلی زہانت کی بدولت آپ نے 16سال کا نصاب صرف 8سال میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا
میری یہ خواہش تھی کہ امام جب پیرس میں پہنچ گئے تھے ایک وفد پاکستانی علماء کی طرف سے ان کی طرف بھیجیں اور ان کو جاکر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ایک آدمی بھی تیار نہیں ہوا
میں سمجھتا ہوں کہ خواہش کرنا کسی اچھے منصب کی کوئی بری بات نہیں ہے البتہ اگر کوئی کسی منصب کا اہل نہیں ہے اس کا اپنے اندر استعداد پیدا کئے بغیر اس کے حصول کے لئے غلط طریقے انتخاب کرنا یہ اچھا نہیں ہے ۔
یہ کتاب نہ فقط الٰہی تعلیمات کا خزینہ و تاریخ کا زندہ و تازہ مظہر ہے بلکہ تاریخِ ادب میں بھی ادبی کتابوں کے ماتھے کا جھمر و ادبی شاہکار کی حیثیت کا حامل ہے۔
پاک ہے وہ ذات کہ جس نے انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت دی اور انسان کو اپنی بندگی کیلئے خلق فرمایا۔درود و سلام ہو محمدؐ و آل محمدؐ پر کہ جن کو اللہ نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی سے دور کیا۔ہم اس بات پر اللہ کے بہت شکر گزار ہیں کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالی نے محمدؐ و آل محمدؐ کی محبت رکھی اور اس راستے پر چلنے کی توفیق دی کہ جس پر چلنے والوں کیلئے اللہ کی طرف سے نعمتیں ہیں۔ اللہ تعالی سے ارتباط کا ایک بہترین ذریعہ دعا ہے،اور اللہ تعالی نے خود قرآن مجید میں انسان کو اس بات کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کیا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ ہر حالت میں دعا کے ذریعے سے اپنے رب سے متمسک رہے.
کسی مکتب فکر کی کتب میں روایات کا موجود ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ مکتب فکر ان روایات کے مطابق نظریہ قائم کرتا ہے، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک مکتب فکر کے علمائے سلف نے ایک نظریہ قائم کیا ہو، لیکن بعدکے علماء اس نظریے پر قائم نہ رہے ہوں۔ اس صورت میں انصاف و دیانت کا تقاضا، کیا یہ ہے کہ اس مکتب فکر کو ان کے علمائے سلف کے نظریے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے یا موجودہ موقف کو قبول کیا جائے؟
آپ کا اسم گرامی فاطمہ ہے ، آپ کا مشہور لقب معصومہ ہے ،آپ کے پدر بزرگوار حضرت امام موسیٰ بن جعفرعلیہماالسلام اور آپکی مادر گرامی حضرت نجمہ خاتون ہیں۔ یہی خاتون آٹھویں امام کی بھی والدہ محترمہ ہیں لہٰذا حضرت معصومہؑ اور امام رضاؑ ایک ہی ماں سے ہیں ۔
امام علی علیہ السلام کی فضائل کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہونے والی احادیث میں سے ایک حدیث جو مختلف طریقوں سے داخل ہوئی ہے اور شیعہ و سنی منابع میں نقل ہوئی ہے۔یہ روایت ہے:(حُبُّ عَلِیٍّ حَسَنَةٌ لَا یَضُرُّ مَعَهَا سَیِّئَةٌ وَبُغْضُ عَلِیٍّ سَیِّئَةٌ لَا یَنْفَعُ مَعَهَا حَسَنَة
علماء فریقین کی اکثریت کااتفاق ہے کہ آپ بتاریخ ۱۰/ ربیع الثانی ۲۳۲ ہجری یوم جمعہ بوقت صبح بطن جناب حدیثہ خاتون سے بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں ملاحظہ ہوشواہدالنبوت ص ۲۱۰ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، نورالابصارص ۱۱۰ ، جلاء العیون ص ۲۹۵ ، ارشادمفید ص ۵۰۲ ، دمعہ ساکبہ ص ۱۶۳ ۔آپ کی ولادت کے بعد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمدمصطفی صلعم کے رکھے ہوئے ”نام حسن بن علی“ سے موسوم کیا (ینابع المودة)۔
اگر علامہ محمد اقبالؒ کے افکار و نظریات کو سامنے رکھا جائے تو اقبال ؒ مسلمانانِ ہند کیلئے جس طرح مصوّرِ پاکستان ہیں، اُسی طرح مصورِ کشمیر بھی ہیں۔ آپکے نظریات و افکار کو جدید پیرائے میں آج کی کشمیری نسل کیلئے بیان کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں جاری جدوجہدِ آزادی کو جہاں ہماری، اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور اجتماعی مدد کی ضرورت ہے، وہیں کشمیریوں کو نسل در نسل علامہ محمد اقبال کے افکار و نظریات سے بھی متصل رہنے کی ضرورت ہے