حجاب کی رعایت نہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق تذکر دینا ضروری اور شرعی فریضہ ہے، آیت الله العظمی نوری همدانی
1928میں جب آپکی عمر 14سال تھی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے مرکز علم و ادب حوزہ علمیہ لکھنؤ داخل کروا دیا گیا۔اپ نے لکھنوء سے فاضل ادب اور فاضل حدیث کی اسناد بھی حاصل کیں خدا داد صلاحیت اور اعلی زہانت کی بدولت آپ نے 16سال کا نصاب صرف 8سال میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا
کراچی میں تین سال کی دن رات محنت و مزدوری کی تھکاوٹ اور خستگی تو نجف کے گنبدِ طلائی پر پہلی نگاہ میں ہی اتر گئی۔ لیکن علوم ِ دینی کی پیاس نے ابھی تک ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا تھا۔ لہذا باقاعدہ طور پر نجف کے علمی سمندر کی گہرائی میں غوطہ زن ماہرین کے محضر میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور علوم دینی کا باقاعدہ حصول شروع ہوگیا۔ باب العلم کی بارگاہ میں دس سال کی حاضری میں سب سے زیادہ جن شخصیات نے آپ کو متاثر کیا وہ فیلسوف کبیر آیت اللہ شہید محمد باقر الصدرؒ اور بت شکن زمان رہبر کبیر حضرت امام خمینی ؒ تھے۔
قرآن ایک کامل کتاب ہے اس میں ہر چیز کا ذکر ہے ۔اس میں خدا وند متعال نے ہر کسی کی ذمہ داریاں بھی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہین اور تمام چیزوں کا تعارف بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے۔قرآن کا اپنا ضابطہ حیات ہے ،یہ انسانی معاشرتی زندگی کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اسی لیے اس کو سماجی دین بھی کہا جاتا ہے ۔قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوے محسوس ہےا کہ بعض آیات میڈیا کے استعمال کے حوالے سے رہنمائی کرتی ہیں ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔انسان کی خلقت کا مقصد معرفت اورقرب خداوندی حاصل کرنا ہے۔ اسلام تعلیم و تربیت پر زیادہ تاکید کرتاہے اسی لئے خداوند متعال نے انسان کی تربیت کا بندوبست انسان کی تخلیق سے پہلے فراہم کیا
اگر بات کی جائے پریانتھا دیاودھنہ کی مذہبی رجحانات کی تو وہ بدھ مت مذہب سے تعلق رکھتے تھے مسلمانوں کے تمام مذہبی تہواروں کا احترام کرتے تھے۔بدھ مت اور اسلام کے تقابل میں ان کا موقف تھا کہ اسلام اور بدھ مت میں پانچ احکام مشترک ہیں.
ستر سال کی مختصر زندگی میں مرحوم نے مکتب ِ تشیع کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔مقامی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کے لیے انہوں نے تبلیغی و علمی میدان اور سماجی و فلاحی میدان میں بہت لازوال خدمات انجام دیں۔ جن کے آثار آج تک موجود اور باقی ہیں۔
قرآن مجید میں ہر سورے کی ابتدا بسم اللہ سے ہوئی ہے اورقرآن میں بہت سے موارد بیان ہوا ہے کہ انبیاء ؑ اپنے کام کا آغاز بسم اللہ سے کرتے تھے ۔ لہذا ہر کام کو بسم اللہ سے شروع کرنا سنت الہٰی اور سنت انبیاءؑ ہے ۔ روایات میں بسم اللہ کے بغیر کسی بھی کام کو انجام دینے سے مذمت کی گئی ہے ۔جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے ؛” کلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَمْ یُبْدَأْ بِبِسْمِ اللّٰہِ فَھُوَ اَبْتَر " یعنی ہر وہ اہم کام جسے اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے اپنے مطلوبہ انجام تک نہیں پہنچتا۔
ہر وہ شخص جومذہبی علوم سے واقف ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ تمام علوم دینی کی برگشت اور ان کا جو ہر تین چیزیں ہیں ۔(۱) عقائد (۲) اعمال (۳) اخلاقیات کوئی شخص کما حقہ دیندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ ان تین امورکو بقدر ضرورت نہ سمجھےاور ان کا علم حاصل کرنے کے بعد ان پر عمل نہ کرے۔
اگرچہ تبلیغ دین کے ذرائع میں تألیف و تصنیف بھی ایک عمدہ ذریعہ ہے لیکن اس مادی دور میں جب لوگ دین کی طرف خاص رجحان نہیں رکھتے وہ مذہبی کتب کے پڑھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے اور پھر سب لوگ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے ۔ لہٰذا جتنی افادیت مجالس و محافل سے ہوسکتی ہے وہ کتب و رسائل سے ممکن نہیں۔
علامہ سید ساجدعلی نقوی،آیت اللہ حافظ ریاض نجفی،مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی نے ایک مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے قرآن کے حوالے سے مکتب اہل بیت کانظریہ بیان فرمایا ہے۔ جوکہ بروقت اقدام ومستحسن عمل ہے۔