او آئی سی ممالک غزہ میں جنگ بندی اور بلاتعطل انسانی امداد کیلئے مل کر کام کریں، پاکستان
زیارت جامعہ محمد و آلِ محمد ﷺ کا قصیدہ ہے، حضرت امام علی النقی علیہ السلام کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں اپنے انتہائی فصیح و بلیغ کلام میں زیارت جامعہ کی تدوین کی جو حقائق اور معرفت کا بے پایاں سمندر ہے۔ حضرت امام جعفر صادقؑ کی شخصیت زیارت جامعہ میں بیان کردہ ان خصائص کی مجسم تصویر ہے۔
ارباب لغت کے نزدیک رحمت کے معنی رحمدلی، کسی پر مہربان ہونا، کسی پر شفقت کرنا اور ترس کھانا ہیں۔ لفظِ رحمت انسان کے لیے نرمی، محبت سے پیش آنا اور لغزشوں و کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ لیکن یہی لفظ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے معنی اللہ تعالی کی ذات اور ہستی کے شایان شان مراد لینا ہوں گے۔ لہذا اللہ تعالی کا رحیم ہونے سے مراد اللہ تعالی کا انسان کی خطائیں بخش دینا اور انسان کی غلطیوں اور بڑے بڑے جرائم پر فورا پکڑ نہ کرنا اور اپنی نعمتوں سے اس کو نوازنا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کی وفات پر اسرائیل کے سب سے موقر اخبار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ واحد اسرائیل دشمن ایٹمی سائنسدان تھا، جو اپنی موت سے بستر پر مرا۔ امریکہ اس تاثر کو بھی دور کرنا چاہتا ہے کہ اس نے خطے کو چھوڑ دیا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ اسرائیل کے تحفظ کے منصوبے کا حصہ ہے
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص ہر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ہر طرف کفر وظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر گھٹا ٹوپ اندیھرا بن کر امڈ رہی تھی۔انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا ۔اغواء قتل وغارت گری اور اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کرنامعمول کی زندگی تھی۔
جب بھی آپکی اکلوتی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام آپکے پاس تشریف لے آتیں تو آپ انکے استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ ابن عباس کی نقل کے مطابق آیہ تطہیر کے نزول کے بعد سے 9 مہینے تک آپ ہر پنجگانہ نماز کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے گھر کے پاس جا کر اپنی اہلبیت کو سلام کرنے کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) راست باز تھے۔ زمانہ جاہلیت میں، آپ تجارت کرتے تھے؛ شام اور یمن جاتےتھے۔ تجارتی کاروانوں میں شامل ہوتے تھے اور آپ کے تجارتی حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کے تجارتی حلیفوں میں سے ایک بعد میں کہتا تھا کہ آپ بہترین حلیف تھے، نہ ضد کرتے تھے، نہ بحث کرتے تھے، نہ اپنا بوجھ حلیف کے کندھوں پر ڈالتے تھے، نہ خریدار کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے، نہ مہنگا بیچتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے، راست باز تھے۔ یہ آنحضرت کی راست بازی ہی تھی کہ جس نے جناب خدیجہ کو آپ کا شیدائی بنایا۔ خود جناب خدیجہ مکہ کی خاتون اول ( ملیکۃ العرب) اور حسب و نسب اور دولت و ثروت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز شخصیت تھیں۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: امام مہدی کے لئے ایسی غیبت ہے جس کے دوران ایک گروہ دین کو چھوڑ دے گا اور ایک گروہ دین کا پابند رہے گا اور اسے اذیت و آزار کا سامنا کرنا پڑے گا ، انہیں کہا جائے گا کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ امام مہدی کے ظہور کا وعدہ کب پورا ہوگا؟ لیکن وہ جو زمانہ غیبت میں ان مشکلات اور جھٹلائے جانے پر مضبوط رہے گا وہ گویا ایسے مجاہد کی مانند ہے جو رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جہاد کررہا ہو۔بحار الانوار ج۵۱ ص ۱۳۲
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ''من دین الآئمۃ الورع... و انتظار الفرج بالصبر'' دین آئمہ میں سے پرہیزگاری اور صبر و تحمل سے انتظار فرج کرنا ہے۔ بحار الانوار ج۵ ص ۱۲۲
امام صادق (ع) کے بعد مدینہ کی مرکزی حیثیت اور افادیت ختم ہوچکی تھی اور یہ ایک زیارت گاہ کی حد تک باقی رہ گیا تھا جبکہ امام رضا (ع) اپنا پیغام سارے عالم اسلام کو سنانا چاہتے تھے-
عبادت و خوف خدا : اولیاء الهی کی کامیابی کا راز بندگی میں پوشیدہ ہے، صحیح معنوں میں بندگی وہ اکسیر ہے جسے پروردگار نے ہر ایک کی دسترس میں رکھا ہے ، جس سے اکثر لوگ بے خبر اور بے توجہ ہیں، جب کہ ہر طرح کی عزت و سربلندی و افتخار ، بندگی کے ہی زیر سایہ ہے ۔ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں : جب کبھی تم چاہو کہ ، عزت بغیر کسی ہمنوا کے پالو، اور جاہ و جلال بغیر کسی سلطنت کے حاصل کرلو، تو تمہیں چاہیئے کہ معصیت خدا کی پستیوں سے باہر نکل آؤ اور پروردگارکی اطاعت والی عزت کا رُخ کرلو۔