پانچویں حضرت امام رضا (ع) عالمی کانگریس کے لئے مجتہدین اور فقہاء کے پیغامات
آپ نے لکھنوء و نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی فراغت تعلیم کے بعد قصبہ نوانی ضلع بھکر میں رہائش اختیار کر لی نوانی میں آپ نماز با جماعت اور خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے تھے آپ اپنے وقت کے بہت بڑے مناظر تھ
ویکسی نیشن نہ کرانے والے افراد میں خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد ساڑھے 4 گنا زائد ہے
امام سجاد(علیهالسلام) نے انسانوں کو جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے نکالنے اور امامت و ہدایت کے اعلی اہداف کے حصول کے لیے ایک بہترین حکمت عملی کا انتخاب کیا اور وہ ہے دعا اور مناجات۔
ايک ايسا فرد کہ جو انسانوں کا رہبر اور ہادي ہو اور لوگ کمال کي طرف سفر کے لئے اس کے دامن سے وابستہ ہوں وہ غائب ہوجائے تو يہ ايک ايسي چيز ہے کہ جو ايک عام رہنما اور عادي انسان کي روش کے خلاف ہے۔ لہذا اسے بعيد سمجھتے ہوئے انکار کرديا جائے گا ليکن گزشتہ بعض پيغمبروں عليھم السلام غيبت کا تحقق اور تاريخ پڑھنے سے امام مہدي عليہ السلام کي غيبت کے مسئلہ کہ آساني اور صحيح طريقہ سے سمجھا اور قبول کيا جاسکتاہے
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے چھ برس پہلے کی بات ہے کہ عظیم تاریخی شہر ملتان کے مغرب میں واقع بستی شیعہ میانی کے مومنین نے اپنے مرشد کامل، عالم ربانی، یکتائے روز، پیکر زہد و تقوی، سید العلماء حضرت علامہ سید محمد باقر نقوی کی خدمت عالیہ میں درخواست کی کہ انہیں ایک عالم دین کی اشد ضرورت ہے جبکہ آپ کے شاگرد رشید مولانا گلاب علی شاہ نقوی البخاری اعلی اللہ مقامہ امتحان سے فارغ ہوچکے تھے اور اپنے عظیم و مہربان اور شفیق استاد کے حکم پر ملتان کی اس پسماندہ لیکن اخلاص ے پر بستی میں تشریف لائے۔
آج مفتی جعفر حسین ؒ کی برسی کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں قومی معاملات، اجتماعی حالات، ملکی مفادات اور ناصبیت کے مقابلے کیلئے متحد ہونے کی یاد دالاتا ہے۔
کربلا کی داستان قربانیوں کی داستان ہے۔ اپنی ذات کے لیے قربانی نہیں۔ اپنے مفادات کے لیے قربانی نہیں۔ کسی قسم کی شہرت کے لیے قربانی نہیں۔
علامہ مجلسی نے زادالمعاد میں فرمایا ہے کہ بہتر ہے کہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ نہ رکھے کیونکہ بنی امیہ اور ان کے پیروکار ان دو دنوں کو امام حسین ع کو قتل کرنے کے باعث بڑے بابرکت وحشمت تصور کرتے ہیں
مدینہ سے روانگی سے قبل اپنے بھائی جناب محمد بن حنفیہ کے نام خط میں لکھا ” میں فتنہ و فساد برپا کرنے یا اپنی شہرت کے لئے نہیںبلکہ اپنے جد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے امور کی اصلاح کے لئے نکل رہا ہوں۔میں نے نیکیوں کاحکم دینے،برائیوں سے روکنے اور اپنے جد بزرگوار اور والد علی ابن ابی طالب کی سیرت کی پیروی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔۔۔۔“
خدا نے ہمیں مکتب حسینی کے نام سے ایک معلم اخلاق عطا کیا ہے۔آپ(ع) نے جب مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو اسی وقت سمجھا دیا کہ میرا قیام شہادت کے لئے ہے۔میری شہادت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے ہے ، میری شہادت اس لئے ہے کیونکہ دین اسلام خطرے میں پڑ گیا ہے اور میں تیار ہو گیا ہوں تاکہ دین اسلام کو نجات دوں لہذا اس سلسلے میں دین اسلام پر اپنا سب کچھ قربان کردوں گا اور فرماتے تھے کہ«أَلَا تَرَوْنَ أَنَ الْحَقَ لَا یُعْمَلُ بِهِ وَأَنَّ الْبَاطِلَ لَا یُتَنَاهَی عَنْهُ لِیَرْغَبِ الْمُؤْمِنُ فِی لِقَاءِ اللَّهِ مُحِقّا» [2]