انہوں نے کہا کہ سال کا نعرہ ملک کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سال کے نعرے کے تحت اقتصادی مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اقتصاد ملک کا مرکزی مسئلہ ہے۔
عراقی الفتح الائنس کے رہنما فاضل الفتلاوی نے اس بات پر زور دیتے ہوئےکہ پوپ فرانسس کی آیت اللہ العظمی سیستانی سے ملاقات کے دوران، عزت مآب مرجع تقلید کے اسرائیلی قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے متعلق واضح انکار نے اس راہ میں کوشاں حکمرانوں کا راستہ روک دیا،اشارہ کیاکہ آیت اللہ سیستانی کے واضح مؤقف، عالمی سطح پر اقوام عالم سمیت دنیا بھر کے حکمرانوں کیلئے ایک اہم پیغام تھا۔
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی فوجیوں کو عراق اور شام سے نکلنا ہوگا آپ نے فرمایا امریکا نے داعش کو خود بنایا اور اس کا اعتراف بھی کیا لیکن داعش کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں غاصبانہ طریقے سے موجود ہے -
مرکزی مینجمنٹ برائے حوزہ ہائے علمیہ ایران نے ایک بیان میں،حضرت آیت اللہ العظمی سیستانی اور پوپ فرانسس کی دو قائدین اور مذہبی پیشوا کی حیثیت سے حالیہ ملاقات کو دانشمندانہ اور قابل ستائش اقدام قرار دیا ہے۔
مبلغین پر بھی لازم ہے کہ وہ لوگوں کے لئے رحمت بن کر جائیں۔پیغمبر اکرم کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئےتبلیغ کے دوران لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھیں۔
روز مبعث خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مناسبت سے ایک پروقار جشن اور معروف کوہ پیما مرحوم محمد علی سدپارہ کی یاد میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔اس تقریب میں مرحوم محمد علی سدپارہ کے دوست ایرانی کوہ پیما جواد نوروزی نے اپنے وفد کے ہمراہ شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ آج کچھ نام نہاد اس ہستی کے ایمان میں شک و شبہ کا گناہ کرتے ییں ۔امام صادق علیہ السلام نے ایک صحابی جناب ابان کے ایمان ابوطالب پر سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جو ایمان ابوطالب میں شک بھی کرے گا خدا اسے جھنم میں ڈالے گا خواہ وہ کتنا بڑا نیک مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
دفتر رہبر معظم کے بین الاقوامی روابط کے معاون حجتالاسلام والمسلمین محسن قمی نے کہا کہ آیتالله سیستانی کی اس تاکید سے وہ تمام سازشیں دم توڑ گئیں جو غاصب صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کی جا رہی تھیں۔
بعثت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے۔ بعثت درحقیقت انسانوں کی بیداری اورعلم و خرد کی سربلندی ہے۔
ابوطالب کا پورا خاندان پیغمبر اکرم(ص) کی حمایت کے لئے مجتمع ہوچکا تھا، اور یہ حمایت رسول اللہ(ص) کی پچاس سال کی عمر تک جاری و ساری رہی؛ یوں ابو طالب(ع) نے 42 سال تک رسول اللہ(ص) کی سرپرستی، مدد اور حمایت کی۔ حمایت کا یہ سفر بڑا کٹھن تھا، کئی مرتبہ ابو طالب(ع) کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا تھا اور جو بھی خطرہ رسول اللہ(ص) کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا، حضرت ابو طالب(ع) تلوار سونت کر آپ(ص) کے دشمنوں کے مد مقابل سینہ سپر ہوجاتے تھے اور قریشی کفار و مشرکین کے تمام خطروں سے نمٹ لیتے تھے۔