حریت کے امام ؑ اور اصلاح امت
امام حسین ؑ کی جدوجہد اور مشن کا محور و مرکز اپنے نانا ؐ کی امت کی اصلاح تھا
امام خمینیؒ کی شکل میں (کہ جو فرزند رسول خدا ؐ و پیرو حیدر کرار ؑ تھا )مسلمانوں کو ایک ایسا رہبر عطا کیا جو اپنے علم و عمل ، صفات و اخلاق، شجاعت و شہامت میں رسول خدا ؐ و آئمہ معصومین ؑ کے کردار کی عکاسی کرتا تھا
تعلیم و تربیت میں ہدف کا مطلب وہ آخری اور مطلوبہ صورتحال ہے، جس کا شعوری طور پر انتخاب کیا جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے مناسب تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں انجام جاتی ہیں
پہلوی دور حکومت بہت سے پہلوؤں سے ایران کی معاصر تاریخ کا ایک متضاد دور ہے اور ارضی سالمیت کے مسئلے میں یہ تضاد کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے۔ پہلوی حکومت بظاہر اور اپنے دعوے کے مطابق اچھی خاصی فوجی طاقت کی حامل ہے لیکن اس کے دور میں اغیار کی جانب سے ایران کی ارضی سالمیت کی لگاتار اور بڑی شدت سے خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
نام کے تو ہم بھی زندہ ہیں لیکن شاعر مشرق علامہ اقبال نے زندگی کی جو تعریف کی ہے اس کی رو سے محمدعلی سدپارہ جیسے لوگ ہی حقیقی معنوں میں زندہ ہوتے ہیں۔ ظاہری شکل و صورت میں وہ بھی ہماری طرح کے انسان ہی تھے مگر جس چیز نے اسے علی سدپارہ بنادیا وہ ان کا پختہ ارادہ ، عزم و ہمت، پہاڑوں کی طرح بلند حوصلہ اور اپنے مقصد پر محکم یقین وغیرہ تھا۔
اسلام نے اسے شرافت وآبروعطاکی ہے۔‘‘عورت جو انسانی معاشرے میں کہیں ماں کہیں بہن تو کہیں بیوی کادرجہ رکھتی ہے۔ اسے ان رشتوں کے بندھن میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتاہے
ڈاکٹر جلال الدین رحمت وہ شخصیت ہیں جو اپنے عزیز و اقارب میں سے کسی کا انحراف دیکھتے تھے یا کسی کا رویہ ہمارے اسلامی نظام کی پالیسی کے مطابق نہیں ہے اور اسے انتباہ کیا جاتا ہے ، تو فورا قبول کرتے تھے اور اظہار کرتے تھے ۔ میں سیدنا القائد (امام خامنہ ای ، ) کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔
مرحوم آیت اللہ محمد تقی بافقی رحمۃ اللہ امام زمان (عج) سے بہت گہرا تعلق اور رابطہ رکھتے تھے ان کا اس حوالے سے ایمان کامل تھا جب بھی ضرورت محسوس ہوتی تو فورا مسجد جمکران میں امام زمان (عج) سے مشرف ہوتے اور اپنی حوائج شرعیہ پیش کرتے تھے ۔
قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد صحیفہ سجادیہ حقائق اور معارف الہی کا سب سے بڑا سر چشمہ اور منبع ہے ۔ اس کو" اخت القرآن "قرآن کی بہن ۔ "انجیل اہلبیت " "زبور آل محمدﷺ " اور صحیفہ کاملہ بھی کہا گیا ہے
فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کی مدد و نصرت کیلئے عرب و عجم سے صدائیں بلند ہونی چاہیے۔ اگر کشمیر میں ہونے والے ظلم سے ہم بے تاب نہیں ہوتے تو ہمیں اپنے ایمان اور مسلمان ہونے پر شک کرنا چاہیے۔