مغربی دنیا کا فلسطین کی حمایت میں قیام مذہبی نہیں، نظریاتی ہے، علامہ امین شہیدی
نکات :عارف کے سیر و سلوک سے مراد ، خواجہ نصیر الدین طوسی کے جملہ میں انقطاع عن نفس سے مراد، اللہ سے وصل ہونے کے بعد سب قدرت ، علم اور فیض اپنے اندر پانا، الہی اخلاق رکھنا،قران مجید میں درس عرفان، تبتل کیا ہے، امام صادق ع کی تفسیر ، کیسے ہماری آنکھ و کان۔۔۔اللہ کے کان و آنکھ ہونگے؟
اگر اسرائیل اور ہندوستان کے حکمران شہداء کے خون کا تمسخر اڑاتے ہیں تو ہمارے حکمران بھی شہداء کے وارثوں کو کبھی ٹشو پیپر کے ٹرک بھیجنے، کبھی شہداء کے ورثاء کو بلیک میلر کہنے اور کبھی سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کی ماوں سے احتجاج کرنے کے بجائے مزید بچے پیدا کرنے کو کہتے ہیں۔
کچھ عرصے کی مختصر سی خاموشی جس میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ یا دھماکہ نہ ہو اور اس وقفے کو امن کا نام دیا جاتا ہے ، در حالیکہ وہ کسی مزید بڑے واقعے کی تیاری کا پیش خیمہ بن رہی ہوتی ہے۔
سلطان عبد الحمید ثانی کا نام ہمیشہ تاریخ فلسطین میں یاد رکھا جاتا ہے۔ مسئلہ فلسطین حق وباطل کی ایک ایسی سرخ لکیر ہے کہ جس نے اپنے حمایتیوں اور مخالفین کو تاریخ میں رقم کر رکھا ہے۔ سلطان عبدالحمید ثانی ترکی کے شہر استنبول میں 21ستمبر 1842ء کو پیدا ہوا اور آپ نے 1876ء سے 1909ء تک سلطنت عثمانیہ کے منصب پر ذمہ داری نبھائی۔
اگر قرآن میں کسی طرح کا انحراف و کجی نہیں ہے،”غیر ذی عوج’‘تو امام حسین کے سلسلے میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ آپ ایک لمحہ کے لئے بھی باطل کی طرف مائل نہیں ہوئے،”لم تمل من حق الی الباطل
سانحہ پشاور میں شہداء کے قاتلوں میں وہ سب لوگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے آج تک اپنی زبان و بیان کے ساتھ معاشرے میں شیعہ عقائد کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائیں اور بے گناہ انسانوں کے قتلِ عام کی راہ ہموار کی۔ دینِ اسلام سچائی کا پیکر ہے
شیعہ حضرات کے مطابق جو شخص حیاتِ پیغمبرﷺ میں ایمان لایا اور تاحیات اُس ایمان پر قائم رہا، صرف وہی صحابی کہلانے کا حق دار ہے۔ ان کے مطابق جس نے ایمان لانے کے بعد رسولﷺکی اطاعت نہیں کی، تو وہ صحابی بھی نہیں رہا۔ یعنی اہلِ تشیع کے ہاں حکمِ رسولﷺ کے مقابلے میں خطائے اجتہادی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
جیسے ہم نے تمہارے درمیان خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاکیزہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔”
انسانوں کی دنیا اور آخرت نابود ہورہی تھی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبعوث ہوئے لوگوں کی دنیا با مقصد ہوئی اور مادی قدریں الہی قدروں میں بدل گئیں۔ خرافہ پرستی اور توہم پرستی نے اپنی جگہ حقیقت کی تلاش کو دی گو کہ بعض لوگ آج تک حقیقت کی تلاش کو گمراہی کا سبب سمجھتے ہیں اور لکیر کی فقیری کو سنت حسنہ سمجھتے ہیں.
اگر ہم اپنے اخلاق کی معصومین(علیہم السلام) کی طرح بنانے کی کوشش کریں تو ہمیں اپنی زبان سے کچھ کہنے کی ضروری نہیں پڑےگی بلکہ لوگ ہمارے کردار کو دیکھ کر خود با خود اپنے آپ کو صحیح راستہ پر گامزن رکھنے کی کوشش کرین گے۔