معلم قرآن و نھج البلاغہ حضرت آیت اللہ شیخ عبداللہ جوادی آملی حفظہ اللہ
























آپ علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں ایک معروف حدیث ہے جس کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ سامراء میں اچھی خاصی تعداد میں شیعہ اس طرح سے اکٹھا ہو گئے تھے کہ دربار خلافت انہیں پہچان نہیں پاتا تھا،
امیر المومنین علیہ السلام اس کلام میں دو نکات کو بیان فرماتے ہیں ایک صدقہ کی تاثیر اور دوسرا قیامت کے دن انسان کے دنیوی اعمال کا حضور کہ جسے ’’تجسم اعمال‘‘ یعنی خود اعمال کا مجسم ہو کر حاضر ہونا۔
آپ دیکھئے کہ اچانک قم میں اشعریین نظر آنے لگے۔ وہ کیوں آئے؟ اشعریین تو عرب ہیں۔ وہ آئے قم۔ قم میں حدیث و اسلامی معارف کا بازار گرم ہو گيا۔ احمد بن اسحاق اور دوسرے افراد نے قم کو اپنا مرکز بنایا۔ ری کے علاقے میں وہ ماحول پیدا ہوا کہ شیخ کلینی جیسی ہستیاں وہاں سے نکلیں۔
امام علی نقی علیہ السلام تقریبا ۲۹/ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے آپ نے اس مدت عمرمیں کئی بادشاہوں کازمانہ دیکھا تقریبا ہرایک نے آپ کی طرف رخ کرنے سے احترازکیا یہی وجہ ہے کہ آپ امورامامت کوانجام دینے میں کامیاب رہے یعنی تبلیغ دین اورتحفظ بنائے مذہب میں فائزالمرام رہے آپ چونکہ اپنے آباؤاجدادکی طرح علم باطن اورعلم غیب بھی رکھتے تھے
واقعی آج ہم ایسے بھیانک دور میں زندگی گزار رہے ہیں کہ اگر سنجیدہ فہم اور ذی علم حضرات اپنی ذمہ داری انجام نہ دیں تو ہمارا معاشرہ قتل و غارت کے دہانے پر پہنچتا دکھائی دیتا ہے اور وہی مغربی شیطان پرست معاشرہ دکھائی دیتا ہے جو اہل مغرب چاہتے ہیں، بلاشبہ اہل مغرب مسلمانوں کو غلامی کی چکی میں پستا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، اہل مغرب شیطان پرست معاشرہ اور یہودی ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں
ہم لوگ حتی اپنی اولاد کی تربیت اور اصلاح میں جتنی کوشش کرتے ہیں اتناہی کم کامیاب ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم آئینہ کی طرح صاف نہیں ہیں ۔
آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولیدوالی مدینہ کی زہرخورانی کے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلودزین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی (جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۸) ۔
صحیفہ سجادیہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ انسان سازی اور تہذیب نفس کے لئے ایک مکتب ہے جس کا عنوان دعا ہے مگر امام سجاد ؑ نے دعا کی صورت میں معارف الہی ، توحید ، معاد ، نبوت ، امامت کو بیان کیا ہے ۔
امام صادق (ع)سے منقول ہے رجب میری امت کے لیے استغفار کامہینہ ہے۔۔ پس اس مہینے میں مغفرت طلب کریں خدا مہربان اور مغفرت کرنے والا ہے اور رجب کو اصبّ کہا گیا ہے کیوں کہ اس مہینے میں اللہ کی طرف سے رحمتیں بکثرت نازل ہوتی ہیں۔ پس بہت زیادہ استغفراللہ و اسئلہ التوبہ پڑھا کرو