حجاب کی رعایت نہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق تذکر دینا ضروری اور شرعی فریضہ ہے، آیت الله العظمی نوری همدانی
1928میں جب آپکی عمر 14سال تھی اعلی تعلیم کے حصول کے لئے مرکز علم و ادب حوزہ علمیہ لکھنؤ داخل کروا دیا گیا۔اپ نے لکھنوء سے فاضل ادب اور فاضل حدیث کی اسناد بھی حاصل کیں خدا داد صلاحیت اور اعلی زہانت کی بدولت آپ نے 16سال کا نصاب صرف 8سال میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا
ہم نے تقریبا ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابوں کو حرف بحرف پڑھا اور جہاں جہاں ہمیں اعتراضات نظر آئے، ہم نے انکو باقاعدہ الگ سے لکھا اور انکے متبادل اپنی آراء کو بھی لکھا اور ہاوس کے سامنے پیش کر دیا۔ متحدہ علماء بورڈ کی کمیٹیوں نے بھی اس پر بحث کی اور پھر فل اجلاس ہوا، جس میں کھلم کھلم بحث ہوئی اور جو ایک دوسرے کے اعتراضات تھے۔
وطن ِ عزیز پاکستان بھی عوامی انقلاب اور اسلامی فکر کے سبب معرض وجود میں آیا تھا۔ ایران اور پاکستان میں بے شمار مشترک اقدار میں ایک یہ قدر بھی شامل تھی کہ دونوں کے ہاں مذہبی سوچ رکھنے والے مسلمانوں نے انقلاب لایا اور طویل عرصے سے یہ انقلابات نہ صرف موجود و قائم ہیں بلکہ روز بروز توانا ہو رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے متعدد بار کوششیں کی ہیں کہ ایران و پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کریں اور انہیں باہم اتنا دور کریں کہ وہ جنگ پر آمادہ ہوجائیں۔ لیکن دونوں ممالک کی مذہبی اور سیاسی قیادت نے یہ سازشیں ہمیشہ اور ہردور میں ناکام بنائی ہیں۔
اگر اولاد کے درمیان فرق ہوں، مثلا ایک بہت زیادہ زیرک اور ہوشیار ہوں لیکن دوسرا اس طرح نہ ہو، تب بھی ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرنا چاہئے، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار سے نقل فرماتے ہیں: خدا کی قسم، میں اپنی بعض اولاد سے محبت کا اظھار بغیر رغبت کے کرتا ہوں، حالانکہ میری یہ محبت کا مستحق میرا دوسرا فرزند ہے، میں اس طرح اس لئے کرتا ہوں، تاکہ ان کے شر سے میرا دوسرا فرزند محفوظ رہے، اور وہ لوگ اس طرح کا کردار پیش نہ کریں جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔(تفسير نورالثقلين، ج۲، ص۴۰۸)
ان تمام محدیثن مفسرین، مورخین اور متکلمین کے مقابلے میں ابن تیمیہ کا یہ قول نہایت قابل توجہ ہے۔ اس شخص کی نص عبارت یہ ہے:قد وضع بعض الکذابین حدیثاً مفتری ان ھذہ الآیۃ نزلت فی علی لما تصدق بخاتمہ فی الصلوۃ، وھذا کذب باجماع اہل العلم بالنقل وکذبہ بین۔۔ و ان علیا لم یتصدق بخاتمہ فی الصلوۃ و اجمع اہل العلم بالحدیث علی ان القصۃ المرویۃ فی ذلک من الکذب الموضوع و ان جمہور الامۃ لم تسمع بھذا الخبر ۔ ( منہاج السنۃ ۲: ۳۰)
امام خمینی (رہ) کے کردار اور طرز عمل کی خوبصورتی و حسن سے عوام میں مختلف طبقہ کے لوگ اپ کے گرویدہ تھے ، سرزمین ایران کی باغیرت ، مقتدر اور دیندار قوم نے بھی جب مرجع عظیم الشان تقلید حضرت روح الله الموسوی الخمینی (رہ) کی گفتار و کردار میں صداقت، اخلاص اور سچائی دیکھی تو مکمل طور سے اپ کے ہمراہ ہوگئی
آیت اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپایگانی نوَّر اللہ مرقدہ الشریف کا شمار بھی مقام اجتہاد کے اعلیٰ درجے پر فائز انہیں فقہاء میں ہوتا تھا۔ آپ کا سانحۂ ارتحال مسلمانان عالم کے لئے بالعموم اور مکتب تشیع کے لئے بالخصوص ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔
آیۃ اللہ صافی گلپائیگانی ان روایت پسند علماء میں سے ایک تھے، جنہوں نے موسیقی کی محفلوں کے انعقاد کی مخالفت کی۔ جب قم المقدسہ میں ایک کنسرٹ کی خبر ملی تو انہوں نے ایک مذمتی بیان میں کہا: موسیقی اور کنسرٹ سے امام زمانہ علیہ السلام کو دلی تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ تقریباً 2012ء کی بات ہے
مجھے فرقہ پرستی والی سوچ، جو اکثریت پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے، اسکے اقدامات سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ شیعہ کمیونٹی سرے سے الگ نصاب تعلیم کا مطالبہ نہ کر دے اور پہلے کی طرح الگ اسلامیات کی تحریک شروع نہ ہو جائے۔
جب ایک شخص الٰہی دستور کو قبول کرتے ہوئے اسلام قبول کرتا ہے اورایمان کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس پر کچھ دینی ذمہ داریاں بھی عائد ہو جاتی ہیں۔یعنی اسلام اور ایمان محض زبان سے کلمہ شہادت ادا کرنے کا نام نہیں اور نہ ہی فقط دل میں خود کو مومن سمجھ لینے سے ذمہ داری ادا ہوتی ہے بلکہ ایمان کے عملی تقاضے پورے کرکے اپنے عمل کے ذریعے اپنے عقیدے و ایمان کا اظہار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔