پاکستان سے حج آپریشن کا آغاز، پہلی پرواز کل مدینہ منورہ کیلیے روانہ ہوگی
نکات :عارف کا مقام ، امام صادق علیہ السلام کے دو فرمان ، حدیث قدسی میں واجبات کی ادائیگی کے بعد مستحبات انجام دینے کا ثمرہ، عارف کا دل ہمیشہ اللہ کے ساتھ، عارف کی منزلت و عظمت، معرفت کے دروازے سب کے لیے کھلے، شریعت کے تابع رہ کر سیر و سلوک کریں
بہت سی روایات دلالت کرتی ہیں کہ حضرت مہدی ؑ رسول خدا ﷺ کے ہم نام ہیں ۔۔۔ اسی طرح احادیث لوح میں کہ جن کا مضمون مکمل طور پر گوناگوں ہے اور ان روایات میں حضرت کا نام آیا ہے ۔ البتہ بعض احادیث لوح میں لفظ " قائم " آیا ہے اور ان چار یا پانچ احادیث میں سے ایک سند اور متن کے اعتبار سے بہت مستحکم ہے ۔
امام مہدی علیہ السلام شیعہ و سنی فریقین میں مورد اتفاق ہیں ۔ان میں اختلاف صرف آپ کے نسب و ولادت کے حوالے سے ہے، لہٰذا چھپانے کے لئے کوئی خاص بات نہیں تھی ،تا کہ تقیہ کے لئے وجہ بن سکے، کیونکہ سب جانتے تھے کہ آپ آخر الزمان میں ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے؛ اس اعتبار سے تقیہ کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
یقینا آپ پوچھیں گے کہ تسمیہ کی حرمت کا راز کیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی حکمت کا راز اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ،اگر بعض نے تقیہ اور خوف کہا ہے تو یہ مطلب درست نہیں ہو سکتا ،کیونکہ خوف و تقیہ کی بناء پر ہوتا تو دیگر آئمہ کا نام لینا بھی جائز نہ ہوتا۔ اسی طرح خو ف و ڈر کی بناء پر ہوتا تو دیگر شخصیتوں اور شیعہ خاص افراد کا نام بھی نہ لیا جاتا اور یہ بات صرف امام زمانہ (عج) کے ساتھ خاص نہ ہوتی۔
امام رضا علیہ السلام سے حضرت قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو میں نے سنا کہ وہ فرما رہے تھے : نہ ان کا وجود دیکھا جائے گا اور نہ انکا نام بیان ہو گا۔
جہاں بھی حضرت ولی عصر علیہ السلام کا نام صراحت سے ذکر ہوا ،یا تو راویوں کی طرف سے بتایا گیا ہے یا ان فقہاء کی طرف سے ہےکہ جو اسے جائز سمجھتے تھے اور اس نام کو نقل کیا ؛ جیسے شیخ بہائی۔ وہ جواز کے قائل تھے اور کتاب مفتاح الفلاح میں حضرت کے نام شریف کو صراحت سے بیان کرتے ہیں۔ لیکن دعاؤوں اور دیگر احادیث میں یا تو حضرت کو لقب سے تعبیر کیا گیا ہے مثلا: " المھدی " یا حروف مقطعہ (م ، ح، م، د ) کے ساتھ ان کے مقدس وجود کو یاد کیا گیا ہے۔
ابو عبداللہ صالحٰ کہتے ہیں :امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک شیعہ نے مجھ سے کہا کہ میں (بارہویں امام )کے نام اور مکان کے بارے میں سوال کروں ؛تو ناحیہ مقدسہ سے جواب آیا :اگر انہیں (دشمن) اس کا نام بتایا تو وہ فاش کر دیں گے اور اگر انہیں جگہ و مکان کا پتہ چلا ،تو دشمنوں کو ادھر کا بتا دیں گے ۔
جب امام علی بن الحسین علیہ السلام نے شہادت پائی ۔ امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت کی خدمت میں عرض کی : آپ پر قربان جاوں! آپ جانتے ہیں کہ میرا آپ کے والد کے علاوہ کوئی نہ تھا اور آپ میرے ان سے انس اور لوگوں سے دوری کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔
شایدانسان کی عقل یہ تسلیم نہ کرے کہ نابالغ بچہ بھی امام ہوسکتا ہے لیکن کیا کیا جائے خالق عقل کہہ رہا ہے کہ میں چاہوں تو کسی کو بچپنے میں نبوت عطا کروں اور چاہوں تو کسی کو امامت وخلافت عطا کروں جیسا کہ قرآن نے صراحت سے فرمایا ہے:” یایحیٰ خذالکتاب بقوة وآتیناہ الحکم صبیاً“اسی طرح دیگر مقام پر آیا ہے :” انی عبداللہ آتانی الکتاب وجعلنی نبیاً “ کیونکہ خالق بھی وہی ہے حاکم بھی وہی شارع بھی وہی اور قانون گذار بھی وہی ہے .پس جب خالق عقل کہہ رہا ہے نابالغ بچہ نبی اور امام بن سکتا ہے تو اگر مخلوق کی عقل اسے بعید سمجھتی ہے تو یہ خود اس کی عقل کی نارسائی ہے .
کبھی کبھی بچوں کے درمیان بھی نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ استعداد کے اعتبار اپنے زمانے کے نابغہ ہوتے ہیں جن کا فہم وادراک پچاس ساٹھ سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھا ہوتا ہے. ان ہی میں سے ایک ” بو علی سینا“ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بارہ سال کی عمر میں امام ابو حنیفہ کی فقہ کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اورسولہ (۱۶) سال کی عمر میں طب کے موضوع پر ” القانون“ جیسی شہرہ آفاق کتاب کی تصنیف کی اور چوبیس (۲۴) سال کی عمر میں تمام علوم کے ماہر ہوگئے.