پاکستان سے حج آپریشن کا آغاز، پہلی پرواز کل مدینہ منورہ کیلیے روانہ ہوگی
نکات :عارف کا مقام ، امام صادق علیہ السلام کے دو فرمان ، حدیث قدسی میں واجبات کی ادائیگی کے بعد مستحبات انجام دینے کا ثمرہ، عارف کا دل ہمیشہ اللہ کے ساتھ، عارف کی منزلت و عظمت، معرفت کے دروازے سب کے لیے کھلے، شریعت کے تابع رہ کر سیر و سلوک کریں
مذکورہ آثار و فواید کے علاوہ اور بھی بہت سے فواید و آثار امام کے وجود کے لئے روایات میں ذکر کیے جاتے ہیں ، مثال کے طور پر امام انسان کی ہدایت کرتے ہیں اور ان کے سوالات کا جواب دیتے ہیں اور …
غیبت کبری میں امام غائب عج کے فوائد اور فیوضات مندرجہ ذیل ہیں ؛ 1. امام واسطۂ فیض ہے : یعنی امام کے وجود کا پہلا اثر اور فایدہ یہ ہے کہ امام معصوم خدا اور اسکے بندوں کے درمیان فیض پہنچانے کا واسطہ اور ذریعہ ہے ، اور جو بھی فیض اور نعمات انسان تک پہونچتی ہیں وہ سب امام معصوم کے ذریعہ ہم تک پہونچتی ہیں اور امام کا واسطہ فیض ہونا دو طرح سے تصور کے قابل ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے جابر کے سوال کے جواب میں فرمایا : "و الذی بعثنی باالنبوۃ انہم یستضیئوون بنورہ و ینتفعون بولایتہ فی غیبتہ کاانتفاع النّاس بالشّمس و ان تجللہا السحاب"(کمال الدین ، ج۱، باب ۲۳ ، حدیث ۳) قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبوت کا منصب دے کر مبعوث کیا ہے ، یقیناً لوگ (غیبت کے زمانے میں) امام غایب کے وجود کی نور سے منور ہوں گے اور ان کی ولایت (اور وجود) سے اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح سورج سے فایدہ اٹھایا جاتا ہے اگر چہ بادلوں نے اسے (سورج) چھپا دیا ہو ۔
اسی طرح مسلمانوں اور روم کے درمیان جنگ پر بہت سے شواہد موجود ہیں ۔ لہذا اگر آپکی مراد یہ ہو کہ ایک بڑی جنگ برپا ہوئی ہو کہ جس میں قیصر روم یا اسکے خاندان کے بعض افراد موجود ہوں تو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔
آقای خوئی مزید بیان کرتے ہیں: " لکن فی سند الروایۃ عدۃ مجاھیل " فرض کے طور پر اگر محمد بن بحر اور بشر بن سلیمان کی مشکل حل بھی ہو جائے تو شیخ طوسی کی سند میں ایسے افراد موجود ہیں کہ جن کی حقیقت مجہول ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ : جب ہم غیبت نعمانی کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں یہ روایت نہیں پاتے یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو انہوں نے مذکورہ روایات کا اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا اس سے روایت کے ضعیف ہونے کا نتیجہ لیا جا سکتا ہے؟
شیخ صدوق نے اس داستان کو اپنی کتاب " کمال الدین و تمام النعمۃ " میں تفصیل سے بیان کیا ہے ہم بات کے طولانی ہونے سے بچنے کے لئے اسے خلاصہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں: " محمد بن بحر شیبانی " کہتے ہیں : سال ۲۸۶ ھجری قمری میں کربلا میں داخل ہوا اور امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی پھر بغداد لوٹ آیا اور سخت گرمی میں امام کاظم علیہ السلام کے مرقد شریف کی طرف روانہ ہوا جب حضرت کے حرم مبارک پہنچا تو گریہ کرنا شروع کیا اس طرح کہ میری آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں اور مجھ سے دیکھا نہ جاتا تھا۔
عمر بن حنظلہ ايک روايت نقل کرتے ہيں کہ علماء اسے قبول کرتے ہيں : لہذا وہ مقبولہ کے نام سے شہرت پاگئي اس روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے شيعوں کي مشکلات اور مسائل ميں شرعي وظيفہ اور وہ کس طرف رجوع کريں,
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشريف کي پربرکت زندگي ظہور سے پہلے تين مراحل ميں تقسيم ہوتي ہے: زمانہ طفوليت (امامت سے پہلے) غيبت صغري کا دور(مختصر مدت) اور غيبت کبري (طويل مدت).